| وہ آیا نہیں دل سنبھلتا نہیں ہے، |
| غمِ یار سینے سے ٹلتا نہیں ہے |
| یہ شعلہ محبت کا ایسا عجب ہے، |
| بڑھاتا ہے حدّت، پگھلتا نہیں ہے |
| کسی نے دیا دل کو ایسا سہارا، |
| کہ اب درد پہلو بدلتا نہیں ہے |
| جوانی کا موسم ٹھہر سا گیا ہے، |
| چمن میں کوئی پھول کھلتا نہیں ہے |
| عجب طور ہیں اس زمانے کے یارو، |
| کوئی ساتھ میرے تو چلتا نہیں ہے |
| سمجھتا ہوں میں راز سب زندگی کے، |
| مگر دل کا شکوہ مچلتا نہیں ہے |
| مجھے بھول بیٹھا ہے شاید وہ ظالم، |
| مرا نام لب سے نکلتا نہیں ہے |
| "ندیم" اب تو بس ایک حسرت یہی ہے، |
| کہ دنیا کا نقشہ بدلتا نہیں ہے |
معلومات