| یہ فیض آج بھی جاری ہے اس سخن ور کا، |
| زباں پہ نام ہے ہر ایک کے علامہ کا۔ |
| وہ فکر جس نے جگایا تھا خواب غفلت سے، |
| اسی سے تابندہ ہے اب بھی چراغ صحرا کا۔ |
| نہیں ہے اس کے تخیل کی کوئی حد باقی، |
| کہ جس نے کھول دیا رازِ حق و دنیا کا۔ |
| دیارِ عشق میں اس کا مقام ہے اونچا، |
| وہ پاسباں ہے ہماری خودی کے جلوہ کا۔ |
| عروجِ ملتِ اسلامیہ کا درس دیا، |
| وہ رہنما تھا ہمارا، وہ میرِ صحرا کا۔ |
| اس کے پیغام میں پوشیدہ ہے حیات کا راز، |
| سمجھ سکے کوئی گر فلسفہ وہ "شاہیں" کا۔ |
| یہ سب کرشمہ ہے اقبال کے ہی ایما کا، |
| 'ندیم'ؔ جاری رہے ذکر اس یگانہ کا۔ |
معلومات