یہ دل جو درد سے خالی ہوا ہے
کبھی یہ غم سے بھی شاکی ہوا ہے
عجب سی رُت ہے اب کی زندگی کی
نہ کوئی اپنا نہ ساقی ہوا ہے
پھرے ہیں در بہ در ہم جستجو میں
جو دل کا چین تھا، راہی ہوا ہے
محبت میں کہاں تک آزمائیں؟
یہ دل تو عشق کا عادی ہوا ہے
جو کل تک ساتھ تھے اپنے سفر میں
وہ منظر اب پرانا ہی ہوا ہے
اُسے کھو کر یہ دنیا اجنبی ہے
مرا ہر خواب، بربادی ہوا ہے
نہ سمجھو بے اثر اس کو کہ یارو
"ندیم" اب شاعری کا ہی ہوا ہے

0
4