یہ زندگی بھی عجب اک سفر سی لگتی ہے
ہر ایک موڑ پہ بس ایک ڈر سی لگتی ہے
نہ کوئی اپنا، نہ کوئی شریکِ غم اپنا
یہ کائنات بھی اب ایک گھر سی لگتی ہے
چراغ جلتے رہے پر ضیا نہیں ہوتی
ہر ایک شام مجھے بے سحر سی لگتی ہے
وفا کا نام سنا تھا کبھی کتابوں میں
حقیقتوں میں یہ اب دربدر سی لگتی ہے
ہزاروں لوگ ہیں لیکن کسی سے بات نہیں
ہر ایک شخص کی صورت ہی اب اجل سی لگتی ہے
جو ہجر میں نہ ملا وہ کبھی وصال میں کیا
یہ آرزو بھی عجب بے ثمر سی لگتی ہے
یہ دل بھی ٹوٹ کے بکھرا ہے اس طرح سے آج
کہ جیسے کوئی عمارت کھنڈر سی لگتی ہے
ندیمؔ اب کوئی امیدِ وصل کیا رکھنا
یہاں تو ہر خوشی اب بے ثمر سی لگتی ہے

0
1