| کبھی یوں بھی تو ہو، وہ روبرو آئے |
| زباں خاموش ہو اور گفتگو آئے |
| ہزاروں خواہشیں دل میں مچلتی ہیں |
| کوئی ان کو سنے اور آرزو آئے |
| عجب یہ گردشِ دوراں ہے ساقی |
| نہ منزل کا پتا ہو، نہ جستجو آئے |
| وفا کا نام سنتے ہی ہنسی آئی |
| کہاں سے اب یہ جھوٹی آبرو آئے؟ |
| فلک پر جو ستارے ہیں گواہی دیں |
| کہ شبنم بن کے میری چشمِ تر سے تو آئے |
| نہ وہ منزل، نہ وہ رستہ، نہ وہ ساتھی |
| کہاں اب کاروانِ دل، کدھر کو آئے؟ |
| غزل کہنا "ندیم" اب فرض ہے اپنا |
| کہ شاید اس بہانے ہی ترا نامِ نیکو آئے |
معلومات