دل وہ افسردہ چراغِ سرِ منزل ہی رہا
شہر میں درد کا عالم یونہی بس چلتا رہا
فکرِ ہستی میں کوئی عقدہ نہ وا ہم سے ہوا
ہم تو سمجھے تھے کہ جینے کا قرینہ ہی رہا
عشق کی زد پہ رہے، عقل سے شکوہ نہ گلہ
یہ جنوں، حد سے سوا، چلتا رہا چلتا رہا
دار پر، قید میں، زنداں میں سحر ڈھونڈی گئی
رختِ جاں اپنا سرِ دشتِ بلا جلتا رہا
گاؤں کا درد لیے، شہر کی جانب جو بڑھا
آنکھ نم تھیں، پہ لبوں پر وہ ہنسی ہنستا رہا
اجنبی ہو گئے سب یار، وہ موسم نہ ملا
ہم نے ہر دور میں تنہا ہی سفر کرتا رہا
ایک بس اس کی جدائی کا ہی صدمہ نہ رہا
ورنہ دنیا میں کوئی درد انوکھا نہ رہا
اپنے اشعار میں رچ بس گئی طرزِ اسلاف
ندیم ہم سخن ور جو ہوئے، فن کا قرینہ ہی رہا

0
3