ہر اک دل میں تری صورت نظر آئی
مرے پہلو میں ہر دم تیری خلوت نظر آئی
بڑا چاہا کہ دل سے بھول جاؤں یاد کو تیری
مگر ہر نقش میں تیری ہی صورت نظر آئی
عجب تھا کربِ تنہائی، عجب تھی رنجشِ دوراں
جہاں دیکھی کوئی محفل، تری محفل نظر آئی
سنا کرتے تھے قصے ہم محبت کے جہاں والوں
ہمیں اپنی کہانی بھی بڑی مشکل نظر آئی
چلے تھے ڈھونڈنے ہم زندگی کا راز دنیا میں
مگر ہر گام پر بس ایک منزل نظر آئی
نہ کوئی یار اپنا تھا، نہ کوئی غمگسار اپنا
بہت روئے جب اپنی ذات مکمل نظر آئی
زمانے بھر میں رسوا ہو گئے ہیں ہم وفا کرکے
محبت کی یہی رسم مسلسل نظر آئی
غزل کہتا ہوں میں "ندیم"ؔ اب اسی بحر میں
کہ ہر مصرع میں اک سچی سی حسرت نظر آئی

0
4