| وفا کیش بن جا، وفا دیکھ لے گا |
| خودی میں ذرا سا خدا دیکھ لے گا |
| یہی زندگی کا کڑا امتحاں ہے |
| جو خود کو سنبھالا، بپا دیکھ لے گا |
| نہ کر فکرِ فردا کہ یہ بزمِ ہستی |
| عمل سے ہی اپنا صلہ دیکھ لے گا |
| نکل کر کبھی دشتِ وحشت سے باہر |
| یہ دل بھی کسی کا گلہ دیکھ لے گا |
| جنوں چاہیے زندگی کے سفر میں |
| خرد کیا، فقط راستہ دیکھ لے گا |
| نہایت قریب آ چکی ہے وہ منزل |
| ہر اک ذرہ اپنا پتا دیکھ لے گا |
| زمانے کے غم سے نہ گھبرا اے ندیمؔ |
| یہ صحرا بھی میرا رسا دیکھ لے گا |
معلومات