| نہ کوئی یارِ دل افروز ہے اپنا یہاں پر |
| نہ کوئی محرمِ اسرار ہے اپنا یہاں پر |
| عجب عالم ہے وحشت کا، عجب دشتِ تنہائی ہے |
| نہ کوئی ہمدم و غم خوار ہے اپنا یہاں پر |
| ازل سے ہے مقدر میں ہماری یہ پریشانی |
| نہ کوئی آرزو بردار ہے اپنا یہاں پر |
| بھٹکتے پھر رہے ہیں در بہ در، کو بہ کو ہم |
| نہ کوئی منزل و دربار ہے اپنا یہاں پر |
| یہ دنیا تو فقط رنج و الم کی ایک بستی ہے |
| نہ کوئی راحت و دلدار ہے اپنا یہاں پر |
| فریبِ زندگی کھا کر، ہوئے ہم خاک اور اب بھی |
| نہ کوئی یارِ وفادار ہے اپنا یہاں پر |
| غمِ ہجراں نے مارا ہے، غمِ دوراں نے گھیرا ہے |
| نہ کوئی مونس و غم خوار ہے اپنا یہاں پر |
| "ندیم" اب کس سے شکوہ ہو، کسے حالِ دل سنائیں |
| نہ کوئی محرمِ اسرار ہے اپنا یہاں پر |
معلومات