| جو ہو سکے تو محبت کے راستے پہ چلیں |
| دیارِ دل سے غموں کے سبھی نشاں کو چلیں |
| یہ زندگی تو فقط رنج و غم کا میلہ ہے |
| کچھ اس طرح سے جیو، پھر خوشی خوشی سے چلیں |
| کسی کے واسطے رکنا تو اب محال ہوا |
| ہوا کے دوش پہ جیسے کوئی دھواں سے چلیں |
| نہ کوئی راہ، نہ منزل، نہ اب کوئی رستہ |
| بس اب تو دل یہ کہے، اپنے آشیاں سے چلیں |
| کبھی تو یار کی محفل میں بیٹھنا ہوگا |
| کبھی تو اس کے گلی کوچے، کارواں سے چلیں |
| یہاں تو سب ہی مسافر ہیں، سب ہی عارضی ہیں |
| کوئی جو پوچھے تو کہہ دو کہ ناگہاں سے چلیں |
| ندیم اب یہ زمانہ بدل گیا ہے بہت |
| وفا کی بات کریں اور پھر یہاں سے چلیں |
معلومات