جو ہو سکے تو محبت کے راستے پہ چلیں
دیارِ دل سے غموں کے سبھی نشاں کو چلیں
یہ زندگی تو فقط رنج و غم کا میلہ ہے
کچھ اس طرح سے جیو، پھر خوشی خوشی سے چلیں
کسی کے واسطے رکنا تو اب محال ہوا
ہوا کے دوش پہ جیسے کوئی دھواں سے چلیں
نہ کوئی راہ، نہ منزل، نہ اب کوئی رستہ
بس اب تو دل یہ کہے، اپنے آشیاں سے چلیں
کبھی تو یار کی محفل میں بیٹھنا ہوگا
کبھی تو اس کے گلی کوچے، کارواں سے چلیں
یہاں تو سب ہی مسافر ہیں، سب ہی عارضی ہیں
کوئی جو پوچھے تو کہہ دو کہ ناگہاں سے چلیں
ندیم اب یہ زمانہ بدل گیا ہے بہت
وفا کی بات کریں اور پھر یہاں سے چلیں

0
2