دل کے زخموں پر بہا اشکوں کا دریا رات بھر
یادِ ماضی نے جلایا اک دیا سا رات بھر
چاند بھی تھا نیم روشن، خامشی کا راج تھا
کچھ کہے بھی، کچھ چھپائے، دل کہا سا رات بھر
خواب میں بھی تیری خوشبو ساتھ چلتی جا رہی
پھول جیسے بات کرتے ہوں ہوا سا رات بھر
غم کی باتوں میں سکوں کا رنگ بھی آ جاتا ہے
تیرے لہجے میں چھپا تھا اک دعا سا رات بھر
ہم نہ سوئے، عشق کی مستی میں گُم تھے بے سبب
چاندنی پیتی رہی دل مبتلا سا رات بھر
وقت رکتا ہی نہیں، یادوں کا دریا بہ گیا
تیری آنکھوں میں تھا کچھ ایسا نشہ سا رات بھر
خواب بُنتی روشنی، تنہائیاں چپ چاپ تھیں
دل نے رکھا آہ میں اک سلسلہ سا رات بھر
چاند ڈھلتا جا رہا تھا، دل مگر بیدار تھا
یاد تھی لب کی، ندیمؔ، بولتا سا رات بھر

0
6