یہ دل بے چین ہے شاید محبت ہو گئی اس کو
یہ کس کا نام لیتا ہے اکیلا ہی ندیم اب تو
بڑی مشکل میں ہے جانِ حزیں اب کیا کیا جائے
کوئی صورت نہیں ہے دردِ دل کی اب ندیم اب تو
یہاں پر کون سنتا ہے فغاں اور آہیں اور گریہ
کسے دکھ درد سنائیں ہم، کسے ڈھونڈیں ندیم اب تو
کسی کی یاد میں رونا یہ کیسا سلسلہ ہے یار
یہ آنکھیں خشک رہتی تھیں، یہ بہتی ہیں ندیم اب تو
کوئی منزل نہیں اپنی، کوئی ساتھی نہیں اپنا
فقط تنہا سفر ہے اور یہ صحرا ہے ندیم اب تو
یہ دنیا ہے فقط دھوکا، یہ دنیا ہے فقط فتنہ
نہ کر اس پر بھروسہ تو، سمجھ جا بس ندیم اب تو

0
4