یہ دل اپنا جلا بیٹھا، تری محفل میں آ کر اب،
کوئی پروا نہیں مجھ کو، کہ دنیا ہے کدھر اب۔
وہی دیوانگی اپنی، وہی وحشت، وہی عالم،
وہی دل اب ہے ناداں، سو در پہ جا کے بیٹھا ہے
تری آنکھوں کا جادو ہے، ترا اندازِ داغؔ اب ہے،
اسی میں فیضؔ کا جلوہ، اسی میں ہے ہنر اب۔
خودی کا درس ملتا ہے، اسی دیوانگی سے اب،
یہی تو زندگی اپنی، یہی حاصل، یہی گر اب۔
نہ کوئی راہ سوجھے گی، نہ منزل کا پتہ کوئی،
عجب ویران دل ہے یہ، عجب خالی ہے منظر اب۔
یہ مانا عشق مشکل ہے، مگر یہ دل بھی ضدّی ہے،
کہ اس نے جان دے دی ہے، ترے وعدوں پہ جا کر اب۔
عجب حالِ دلِ مومنؔ، عجب یہ بے بسی اپنی،
نہ کوئی بات بنتی ہے، نہ کوئی ہے سخن ور اب۔
ندیمؔ اب آخری منزل، یہی ہے جستجو کی بس،
کہ اس فانی سی دنیا سے، کہیں جا کر رہے سر اب

0
6