| یہی جنوں ہے کہ دل پھر شکار میں آیا |
| نظر جھکی سی رہی اور وہ کنار میں آیا |
| بہار آئی چمن میں، مگر وہ رنگ نہیں |
| کہ جیسے ذکرِ صبا اب غبار میں آیا |
| وہی وفا کی تمنا، وہی ہے طرزِ جنوں |
| کہ دل کا حال وہی کاروبار میں آیا |
| عجب فریب تھا دنیا کا، ہم بھی مان گئے |
| جو شخص یار بنا، وہ شمار میں آیا |
| نہ کوئی بات سُنی دل کی، اور نہ حال پوچھا |
| ہر ایک زخم نئے طرز سے ابھار میں آیا |
| یہاں تو کوئی بھی اپنا نہیں، ندیمؔ اب کے |
| خدا ہی دیکھ سکے، کون اس دیار میں آیا |
معلومات