| وفا کے باب میں اب کوئی بھی اشارہ نہیں |
| یہاں پہ دل کو کسی کا کوئی سہارا نہیں |
| ہزاروں لوگ ملے زندگی کی راہوں میں |
| مگر وہ ایک جو اپنا تھا، اب کنارہ نہیں |
| یہ دل بھی ٹوٹ کے بکھرا تو یہ ہوا معلوم |
| کہ اس حیات میں کچھ بھی ہمیں گوارا نہیں |
| عجب فریب تھا دنیا کی روشنی کا ندیمؔ |
| چراغ جلتے رہے، پر کوئی نظارہ نہیں |
| جو زندگی نے دیے زخم، سب قبول کیے |
| کہ اب تو دل میں کوئی درد کا شمارہ نہیں |
| یہاں تو رسمِ محبت بھی ایک کہانی ہے |
| جو دل کو چیر دے، ایسا کوئی نظارہ نہیں |
| غمِ حیات سے شکوہ نہیں ہمیں کوئی |
| کہ اب تو درد بھی لگتا ہے، کچھ پرایا نہیں |
| ندیمؔ ہم نے بھی چاہا کہ سر اُٹھا کے چلیں |
| مگر یہ عشق وہ بحر ہے، جس کا کنارہ نہیں |
معلومات