پھر وہی دل، وہی تمنّا ہے
کیا خبر کتنی عمر گنوانا ہے
یارِ دیریں کی بزم ہے سونی
جس جگہ آج ایک افسانہ ہے
لے گئے چھین کر وہ ہوش و حواس
اب فقط دل میں ایک ویرانہ ہے
ہائے وہ چاند سا ترا چہرہ
جس کو تکنے سے دل یہ شادانہ ہے
غمِ فرقت کو یار بزم میں لا
کیا فقط یہ تری فسانا ہے
کون سمجھے مری خموشی کو
ہر سخن دل کا اب غریبانہ ہے
ہم نے دنیا کو چھوڑ کر "ندیم"
ڈھونڈ نکالا وہ جو دیوانہ ہے

0
3