عجب سی زندگی اپنی، عجب یہ ماجرا دیکھا
نہ دل کو چین مل پایا، نہ کوئی آشنا دیکھا
مقامِ منزلیں کب ہیں، سفر ہے زندگی اپنی
کوئی ٹھہرا نہیں اب تک، نہ کوئی انتہا دیکھا
خزاں چھائی گلستاں پر، نہ کوئی پھول کھل پایا
جوانی کا سماں گزرا، نہ رنگِ دل کشا دیکھا
سمجھ میں کچھ نہیں آتا، یہ دنیا کس طرف جائے
میں نے چہروں پہ ان کے، ہی عجب اک ماسوا دیکھا
وہی غم ہے وہی آنسو، وہی دل ہے وہی حسرت
نہ کوئی فرق اب آیا، نہ کوئی فیصلہ دیکھا
یہاں پر بس "ندیم" اتنا، فقط اک زندگی گزری
مگر اس زندگی میں بھی، عجب اک ماجرا دیکھا

0
3