| یقیں وہ راہ ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں |
| یہ دل ہے موم سا، اس میں کوئی شرارہ نہیں |
| غمِ حیات کو سمجھا اگر تو درد سمجھ |
| خوشی وہ آگ ہے جس کا کوئی اشارہ نہیں |
| یہاں تو رسمِ محبت بھی اک کہانی ہے |
| وفا کا ذکر نہ کر، اب کوئی سہارا نہیں |
| ہزار شکلیں بدلیں زمانے والوں نے |
| کسی کے پاس بھی اپنا کوئی نظارہ نہیں |
| جو زندگی نے دیے زخم، سب قبول کیے |
| کہ اب تو دل میں کوئی زخم کا شمارہ نہیں |
| وہ ایک شخص جو دل میں مکیں تھا مدت سے |
| جدائی اس سے ہوئی، اب کوئی گزارہ نہیں |
| ندیم ہم نے بھی چاہا کہ سر اُٹھا کے چلیں |
| مگر یہ عشق عجب ہے، کوئی بھی چارہ نہیں |
معلومات