| کوئی پیام نہ آیا، یہ کیا گلہ ہے ہمیں |
| کہ دل کا حال بتانا بھی اب سزا ہے ہمیں |
| نہ کوئی رنگ رہا اب، نہ کوئی بو باقی |
| فقط جنوں ہے میسر، یہی دوا ہے ہمیں |
| جو دل پہ نقش ہوئے زخم، وہ مٹیں تو کیسے |
| یہی ستم ہے کہ یہ داغ بھی بھلا ہے ہمیں |
| یہاں تو رسمِ محبت عجیب ہے اے دوست |
| جو دل کو توڑ گیا، اس سے ہی وفا ہے ہمیں |
| ہمیں خبر تھی کہ دنیا ہے بے وفا ساری |
| مگر یہ دل تو ازل سے اسی خطا ہے ہمیں |
| کبھی تو آؤ کہ یہ شامِ ہجر بیت سکے |
| کہ انتظارِ سحر بھی نہیں روا ہے ہمیں |
| یہ زندگی بھی ندیمؔ اب تو بوجھ لگتی ہے |
| کہ اس جہاں میں فقط درد آشنا ہے ہمیں |
معلومات