| ملا ہے درد اب جو دل کو، شکایت کیوں نہیں کرتے |
| تم اپنے ہجر کا ہم سے، تقاضا کیوں نہیں کرتے |
| وفا کا نام سن کر ہم، بہت حیران ہیں لوگو |
| کہ اس دنیا میں اب کوئی، یہ سودا کیوں نہیں کرتے |
| خزاں کا دور ہے، گلشن اداس و بے زباں ٹھہرا |
| کوئی دیوانہ آ کر اب، یہ چرچا کیوں نہیں کرتے |
| نظر کو اب کسی منظر، سے کوئی رغبتیں کب ہیں |
| سوادِ شہرِ جاناں کا، نظارہ کیوں نہیں کرتے |
| یہ کیسی رسم الفت ہے، یہ کیسا پیار ہے آخر |
| جو دل کو توڑ دیتے ہیں، تو پروا کیوں نہیں کرتے |
| چلے آؤ کہ اب دل میں، کوئی حسرت نہیں باقی |
| مری جاں تم مری جانب، اشارہ کیوں نہیں کرتے |
| سنا ہے اب وہاں کوئی، کسی کا منتظر کب ہے |
| تو پھر اے "ندیم" تم ذکرِ، تمنا کیوں نہیں کرتے |
معلومات