جو درد دل میں بسا ہے، کسی دوا سے نہ جائے
یہ غم تو اب مری جاں سے بھی آشنا نہ رہے
جو زخم یار نے بخشے، وہ دل سے کیسے مٹیں
بہار آئے چمن میں، مگر ہوا نہ رہے
عجیب عالمِ الفت ہے، دل یہ کہتا ہے
وفا کا ذکر رہے، پر کوئی وفا نہ رہے
میں جانتا تھا کہ یہ راستے کٹھن ہوں گے
سفر تمام ہوا، اور کوئی پتا نہ رہے
یہ تشنہ کامی رہے گی اب اور تا بہ ابد
ہزار ساقی آئیں، مگر صبا نہ رہے
ترے ستم سے جو دل پر لگی، وہ مٹنے نہ پائے
کوئی بھی حال رہے، پر کوئی گلہ نہ رہے
یہ زندگی بھی ندیمؔ اب تو بار لگتی ہے
اجل کا خوف نہیں، پر کوئی جیا نہ رہے

0
3