یہ بزمِ ناز ہے یا محفلِ بہاراں ہے
جدھر نظر ہو ادھر اک نیا گلستاں ہے
نہ کوئی پاس نہ کوئی شریکِ غم اپنا
جو دل پہ بوجھ ہے وہ میرا اپنا ارماں ہے
وہ چھا گئے ہیں کہ جیسے بہار آئی ہو
ہزار حور و پری ہیں، وہ رشکِ دوراں ہے
یہ زندگی کا سفر ہے عجب طرح کا سفر
کہ جس میں ہر کوئی تنہا ہے اور پریشاں ہے
کبھی تو آ کے سنا میری داستاں مجھ سے
کہ تیری یاد میں یہ دل بڑا پشیماں ہے
وفا کی راہ میں چلنا ضرور چلنا تم
مگر یہ دیکھنا رستہ بڑا ہی ویراں ہے
کسی کے ہجر میں جینا کمال فن ہے مگر
یہ فن جو سیکھ گیا، وہ بڑا ہی ناداں ہے
بہت سنبھال کے رکھنا متاعِ دل کو "ندیم"
یہ شیشۂ دلِ نازک بہت ہی ارزاں ہے

0
4