مقامِ یقیں گر، ملے جستجو کو،
یہ رازِ نہاں ہے، بتا تو کیا ہے؟
خودی پر جو سمجھے، رہِ زندگی کو،
حقیقت میں انساں، بھلا تو کیا ہے؟
یہ دنیا ہے ساری، فریب و نظر کو،
حقیقت میں اس کا، صلہ تو کیا ہے؟
نہ ڈر دشمنوں سے، ملے گی ظفر کو،
ستارا ہے تیرا، دیا تو کیا ہے؟
عمل کی حرارت، ہے میزانِ حق کو،
بغیر اس کے تیرا، گلہ تو کیا ہے؟
یقیں محکم اور ہے، حیاتِ ابد کو،
گماں کا یہ عالم، سرا تو کیا ہے؟
جو باطل سے ٹکرائے، راہِ خدا کو،
اسی کے لیے یہ، فضا تو کیا ہے؟
ندیم اب نہ پوچھو، مقامِ وفا کو،
شہیدِ وفا ہے، خطا تو کیا ہے؟

0
3