وہاں پہنچتے ہی دل کا عجیب لگتا ہے
سفر میں رہبر سب ہی بچھڑ ہی جاتے ہیں
یہیں کہیں پہ ترا نقشِ پا ملا تھا ہمیں
یقین تھا کہ وہیں سے خدا نکلتا ہے
کوئی بھی خواب مکمل نہیں ہوا اب تک
مگر امید کا اک سلسلہ نکلتا ہے
نظر اٹھاؤ تو ہر سمت اک اداسی ہے
نظر جھکاؤ تو اک مدعا نکلتا ہے
یہ دل وہ شہرِ خموشاں ہے جس کے کونے سے
نہ کوئی آئے نہ کوئی صدا نکلتا ہے
کبھی جو دیکھوں تری انجمن میں آنے کو
حضورِ یار کوئی ماجرا نکلتا ہے
سکونِ دل کی تلاش اب رہی نہیں مجھ کو
کہ ہر سکوت سے اپنا پتا نکلتا ہے
یہ دشتِ ہجر ہے، مقتل ہے اور کچھ بھی نہیں
"ندیم" جان سے مشکل سے جا نکلتا ہے

0
3