نہ کوئی بہاریں، نہ کوئی سروریں
فقط غم کے دل میں، بسی منزلیں ہیں
نہ دل کو سکوں ہے، نہ کوئی خوشی ہے
فقط غم کدے کے، یہی سلسلے ہیں
یہاں پر نہ یاروں، نہ کوئی وفائیں
فقط رنج و غم کے، یہی مرحلے ہیں
جو دل میں چھپے تھے، وہ لب پر سجے ہیں
عجب بے خودی کے، یہی ذائقے ہیں
یہ دنیا ہے فانی، یہ دنیا ہے فانی
فقط چند روزہ، یہاں سلسلے ہیں
نہ مہر و وفا ہے، نہ کوئی محبت
یہاں ہر کسی کے، جدا راستے ہیں
نہ کوئی امیدیں، نہ کوئی سہارا
فقط رنجِ دل کے، یہی سلسلے ہیں
ندیم اب یہاں پر، غزل لکھ رہے ہیں
فقط اپنے دل کے، یہی فلسفے ہیں

0
3