| نہ کوئی بہاریں، نہ کوئی سروریں |
| فقط غم کے دل میں، بسی منزلیں ہیں |
| نہ دل کو سکوں ہے، نہ کوئی خوشی ہے |
| فقط غم کدے کے، یہی سلسلے ہیں |
| یہاں پر نہ یاروں، نہ کوئی وفائیں |
| فقط رنج و غم کے، یہی مرحلے ہیں |
| جو دل میں چھپے تھے، وہ لب پر سجے ہیں |
| عجب بے خودی کے، یہی ذائقے ہیں |
| یہ دنیا ہے فانی، یہ دنیا ہے فانی |
| فقط چند روزہ، یہاں سلسلے ہیں |
| نہ مہر و وفا ہے، نہ کوئی محبت |
| یہاں ہر کسی کے، جدا راستے ہیں |
| نہ کوئی امیدیں، نہ کوئی سہارا |
| فقط رنجِ دل کے، یہی سلسلے ہیں |
| ندیم اب یہاں پر، غزل لکھ رہے ہیں |
| فقط اپنے دل کے، یہی فلسفے ہیں |
معلومات