| عجب ہے زندگی اپنی، عجب اک طورِ الفت ہے |
| نہ دل کو چین ملتا ہے، نہ اس کی اب ضرورت ہے" |
| یہ عشقِ ناتواں میرا، یہ دردِ بے دوا میرا |
| یہ سب تیری عنایت ہے، یہ تیری اک محبت ہے |
| تری ہر اک ادا پر دل لٹانے کو یہ جی چاہے |
| یہی تو زندگی اپنی، یہی اپنی ضرورت ہے |
| محبت میں کہاں کوئی اصول و رسم چلتی ہے |
| یہ دل کا فیصلہ ٹھہرا، یہی سچی حقیقت ہے |
| نہ پوچھو حال دیوانے کا، یہ تو بس تڑپتا ہے |
| اسے منظور ہے ہر غم، اسے ہر درد راحت ہے |
| وفا کا نام سنتے ہی، یہ دل اب کانپ جاتا ہے |
| کہ اس بازار میں اس کی کہاں کوئی بھی قیمت ہے |
| اگر جینا ہے اس دل کو، تو بس اک بات لازم ہے |
| بھلا دو ہر وہ اک شکوہ، جو دل میں کوئی حسرت ہے |
| "ندیم" اب چھوڑ دے یہ سب، یہ قصے عشق و الفت کے |
| "یہ دنیا اس کو کہتی ہے فقط دیوانگی سی ہے" |
معلومات