زلف تیری کہکشاں ہے، دل اسیرِ پیچ و خم
ہو گیا ہے زندگی کا اب تو حاصل پیچ و خم
جب کھلی زلفیں تری، اِک حشر برپا ہو گیا
جیسے چھایا ہو جہاں میں، کوئی بادل پیچ و خم
اِس سیہ کاری پہ تیری، دل مرا قرباں ہوا
ہو نہ جائے اب کہیں یہ، میرا قاتل پیچ و خم
پھول سے رخسار پر جب، آ کے بکھریں یہ کبھی
ہو گیا ہے اور بھی اب، میرا مشکل پیچ و خم
چاندنی شب میں ترا، یہ حسن کتنا پُر فریب
دیکھ کر اس کو ہوا، ہر اِک کا مائل پیچ و خم
تیری زلفوں کی کہانی، ہر طرف مشہور ہے
رہ گیا "ندیم"ؔ کا دل، کر کے منزل پیچ و خم

0
4