| سفر میں دُھوپ تھی اور سایہ دار پیڑ کہاں |
| عجب دیار ہے، کوئی بھی ہم کنار کہاں |
| ہزار چہرے ہیں بازارِ شہرِ جاں میں مگر |
| وہ جس کی آس تھی دل کو، وہ یارِ غار کہاں |
| یہ دل فریب سی دنیا، یہ عارضی منظر |
| کوئی بھی شے یہاں باقی، کوئی قرار کہاں |
| ہم اپنی ذات میں گم تھے، کسی کو کیا معلوم |
| نجات پانے کا اب کوئی انتظار کہاں |
| جنوں کی حد میں گزر آئے، پھر ہوا معلوم |
| مگر حقیقتِ منزل کا اعتبار کہاں |
| جو میری آنکھ سے ٹپکا، وہ درد تھا دل کا |
| یقیں کرو کہ کوئی اشکِ آبشار کہاں |
| ہمارا بوجھ اٹھانے سے تھک گئے شانے |
| کبھی خیال ہمیں اپنے حالِ زار کہاں |
| یہ بے حسی ہے ندیم اب کہ کیا کہیں اس کو |
| دیارِ غیر میں کوئی بھی سوگوار کہاں |
معلومات