دل میں اک امید کا پھر سے دیا روشن ہوا
جب خیالِ یار آیا، یہ جہاں روشن ہوا
غم کی تاریکی میں ہم نے زندگی گزری مگر
آپ کے آنے سے سارا آشیاں روشن ہوا
اب کوئی شکوہ نہیں ہے زندگی سے اے صنم
آپ کا چہرہ جو دیکھا، آسماں روشن ہوا
راہ میں کچھ روشنی سی پھیلتی جاتی رہی
جیسے کوئی چاند بادل سے میاں روشن ہوا
ہر طرف اک رقص تھا، اک جشن تھا، اک نور تھا
بزم میں جب وہ ستارہ، ناگہاں روشن ہوا
شمعِ محفل جل رہی تھی انتظارِ یار میں
شعر جب میرے پڑھے گئے، بیاں روشن ہوا
مدتوں سے دل ہمارا تھا اندھیروں میں پڑا
چشمِ ساقی سے یہ دل کا میخانہ روشن ہوا
کیا کہیں اب حالِ دل، اے دوستو! سن لو ندیمؔ
حسن کی بارش ہوئی اور ہر مکاں روشن ہوا

0
4