| نہ کوئی خواب ہے اب اور نہ کوئی تقدیر باقی، |
| فقط اک دل ہے سینے میں، وہی تصویر باقی |
| ہزاروں آرزوئیں دل میں پنہاں ہو کر رہیں اب، |
| مگر اک حسرتِ دیدار ہے، تدبیر باقی |
| عجب سودا ہے الفت کا، عجب دیوانگی ہے، |
| کہ ہر شے لٹ گئی، پر لذتِ زنجیر باقی |
| یہ بزمِ دہر ہے، ہر شے یہاں فانی ہے ساقی، |
| کوئی جمشید باقی ہے، نہ کوئی میر باقی |
| جہاں میں اہلِ دل کی قدر اب ہوتی کہاں ہے؟ |
| فقط رسوائیاں ہیں اور غمِ شب گیر باقی |
| بڑا مشکل ہے جینا اس زمانے میں "ندیم" اب، |
| فقط دیوانگی ہے اور غمِ تقدیر باقی |
معلومات