| کوئی صورت نظر آئی نہ اب تک دل لگانے کی |
| کہاں سے لاؤں وہ باتیں، وہ رسمیں مسکرانے کی |
| وفا کے نام پر ہم نے بہت کچھ کھو دیا اپنا |
| یہ دنیا تھی فقط ہم کو نئے منظر دکھانے کی |
| چلے تھے ساتھ دینے کو، مگر اب دور ہو جیسے |
| وہ باتیں سب پرانی تھیں، فقط دل کو لبھانے کی |
| عجب انداز ہے اس کا، عجب اک طور ہے اس کا |
| نہ پوچھے حالِ دل میرا، نہ پروا ہے ستانے کی |
| ہمارے حال پر دنیا بہت ہنستی رہی لیکن |
| اسے فرصت نہ تھی اپنی، اسے اپنی سنانے کی |
| یہ ویرانی، یہ تنہائی، یہ سناٹا، یہ خاموشی |
| یہی تو رسم ہے اب کے زمانے میں نبھانے کی |
| ہمیں منظور تھی ہر اک اذیت اس کی چاہت میں |
| نہیں تھی تاب لیکن اس قدر تنہا رہ جانے کی |
| "ندیم" اب لوٹ آؤ تم، نہیں کوئی یہاں اپنا |
| کہانی ختم ہے اپنی، نہیں گنجائش فسانے کی |
معلومات