یقیں اب کسی پر رہا ہی نہیں
کوئی دل میں درد آشنا ہی نہیں
جہاں ہم کھڑے ہیں، وہ اپنی زمیں
کوئی نقشِ پا ہے، خلا ہی نہیں
وہ بادل جو دل پر برسنے تھے اب
جو اٹھے تھے دل سے، گھٹا ہی نہیں
یہ دنیا تو مٹی کا اک ڈھیر ہے
یہاں کچھ بھی ویسا بپا ہی نہیں
یہ چہرے جو دیکھے ہیں بازار میں
کوئی ان میں چہرہ حسیں ہی نہیں
کبھی سوچتا ہوں کہ جاؤں کہیں
مگر اب تو کوئی پتا ہی نہیں
یہاں بات سنتا نہیں کوئی اب
کوئی چارہ گر، کوئی دیں ہی نہیں
"ندیم" اب یہ کیسی تری زندگی
وفا بھی نہیں اور یقیں ہی نہیں

0
2