| کیا کہوں حالِ دلِ زار، ستم گر تجھ سے |
| ہو گئی زندگی بیزار، ستم گر تجھ سے |
| تیرے کوچے میں جو گزرا، سو گزرا، لیکن |
| اب بھی دل ہے گرفتار، ستم گر تجھ سے |
| آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا، یہ ستم ہے کیسا |
| ہم تو بیٹھے تھے پر امید، ستم گر تجھ سے |
| ہجر میں کٹ رہی ہے عمر، کوئی پوچھے تو سہی |
| کیا یہی تھا تیرا اقرار، ستم گر تجھ سے؟ |
| بات کرنے کا سلیقہ کوئی سیکھے تجھ سے |
| ہو گئے ہم تو گنہگار، ستم گر تجھ سے |
| کچھ تو ہوتی مروت، کچھ تو ہوتا اپنا |
| کیوں ہوئے اتنے خفا یار، ستم گر تجھ سے؟ |
| میرے اشعار میں سوز و گداز تیرا ہے |
| بن گیا میں بھی سخن کار، ستم گر تجھ سے |
| سن لے آخر یہ وصیت اے ندیمِ خستہ جاں |
| اب نہ کرنا کبھی تکرار، ستم گر تجھ سے |
معلومات