یہ دل اپنا جلا بیٹھے، کسی ظالم کے دھوکے میں،
بڑی حسرت سے ہم آئے، اسی دنیا کے میلے میں۔
نہ پوچھو حال اے ہمدم، کہ بس جینے کی حسرت ہے،
جنازہ دل کا نکلا ہے، تری زلفوں کے سائے میں۔
عجب آشوب برپا ہے، تری الفت کے ماروں میں،
نہ کوئی چین پہلو میں، نہ کوئی دل ٹھکانے میں۔
ہماری زندگی گزری، فقط اک داغِ حسرت بن،
کبھی صحرا میں روتے ہیں، کبھی بیٹھے ہیں ویرانے میں۔
یہ مانا عشق مشکل ہے، مگر یہ دل بھی ضدّی ہے،
کہ اس نے جان دے دی ہے، کسی ظالم کے وادے میں۔
خرد سے کام لینا تھا، مگر دل نے نہ مانا اب،
یہی نادانیاں اپنی، ندیمؔ اب ہیں فسانے میں

0
4