جس جا ترا نقشِ پا نظر آئے، بَھلا لگے
سجدہ کریں گے ہم تو، ہمیں کعبہ سا لگے
یوں دل نے اپنے غم کو سنبھالا ہے اب کے بار
جیسے کوئی مریض کہ عادت دوا لگے
اُس چشمِ فتنہ گر کی مجھے کیا خبر بھلا
جب دیکھتا ہوں اُس کو، نیا آشنا لگے
ترکِ وفا کا ذکر ہی کیا، ہم تو دل سے بھی
گر کوئی چاہے، آپ کو اپنا بنا لگے
آغوشِ یار میں جو میسر ہو ایک پل
پھر زندگی کی دھوپ ہمیں سائباں لگے
واعظ نہ چھیڑ اب سخنِ جنت، کہ اب ہمیں
دیوانگی ہی اپنی، بہشتِ بقا لگے
کیا جانے کس ہنر سے وہ پہلو میں آ بسے
اُس شوخ کے بدن کو بدن آشنا لگے
دیوانہ وار پھرتے ہیں ہر کوچہ و گلی
کیا کیجیے کہ دل کو یہی آسرا لگے
جب شامِ غم ڈھلی تو ہوا یہ سکوت چھا
جیسے کہ زندگی کا کوئی ماجرا لگے
اب ذکرِ یار و غیر نہ کر "ندیم" تو
جب بات ہو سخن کی، تو کوئی التجا لگے

0
3