حالِ دل اُن سے کہہ نہیں سکتا |
جانتے ہیں وہ سب بغیر کہے |
نیند میں موت کا رہے کھٹکا |
وہ نہ جس رات شب بخیر کہے |
نیند آتی نہیں مجھے شاہد |
جب تلک وہ نہ شب بخیر کہے |
کیا؟ تِرا دل اُچاٹ ہوتا ہے |
لو، چَلا جاتا ہوں مِیں محفل سے |
کچھ ادھورا کبھی رہا ہی نہیں |
نسبت اپنی ہے پیرِ کامل سے |
بن کے شاہد نشانِ جادہ ہم |
رہتے جاتے ہیں دور منزل سے |
غموں کی مالا میں منظوم؟ ہاں منظوم ہوں یارم |
ترے جانے سے میں مغموم؟ ہاں مغموم ہوں یارم |
اب اِس سے بڑھ کے میری بد نصیبی اور کیا ہو گی |
تمہارے لمس سے محروم؟ ہاں محروم ہوں یارم |
تمہاری ذات لافانی تمہارے جلوے لافانی |
میں شاہدؔ اِک بشر معدوم؟ ہاں معدوم ہوں یارم |
مردِ جَری، ابو الاحرار ابنِ کرارؑ |
بَر حق مجاہدوں کے سردار ابنِ کرارؑ |
حسنینؑ کی محبت کا ہیں صِلہ محمدؐ |
ایمانِ کُل ہیں ابنِ کرار ابنِ کرارؑ |
حضرت حسن ہوں یا ہوں حضرت حُسین شاہدؔ |
ظلمت کی توڑتے ہیں تلوار ابنِ کرارؑ |
یکسر مہک اُٹھا ہے چمن، عید مبارک |
مسرور ہوے اہلِ وطن، عید مبارک |
گو تم نے بہت ہم پہ کی دُشنام دَرازی |
پھر بھی تجھے اے چاک دَہن، عید مبارک |
ہر دور پہ ہر وقت پہ ہر لمحے پہ شاہدؔ |
ہے اُن کا کرم سایہ فگن، عید مبارک |
ہر گھڑی تو وہ مجھ سے لڑتی ہے |
پھر بچھڑنے سے کیوں وہ ڈرتی ہے |
میرے مرنے کی بات سن کر وہ |
سسکیاں اور آہیں بھرتی ہے |
بستیِ پھول کی ہر اک رنگت |
اس کے دستِ حنا سے لڑتی ہے |
کرم کرنے کو تو ہر بار وہ دشمن کی اور جائیں |
مگر میری طرف ہر بار وہ کرنے کو بیداد آئے |
مِری وحشت کا پایہ تو نہ کوئی پا سکا یاں پر |
اگر چہ دشت و صحرا میں بہت قیس اور فرہاد آئے |
جو آب و تاب عز و شان دیکھی خُلد کی شاہدؔ |
تو ہم کو اُن کا کوچہ اُن کے بام و در ہی یاد آئے |
تُو مظہرِ حُسنِ بے نشاں اے ہند کے سلطاں |
تُو نائبِ شہِ ہر دو جہاں اے ہند کے سلطاں |
تُو جادہِ مکاں و لا مکاں اے ہند کے سلطاں |
تُو زاتِ حق کا چمکتا نشاں اے ہند کے سلطاں |
تمہارے در پہ جسد میرا سجدہ سجدہ پڑا ہے |
مرا ہے کعبہ ترا آستاں اے ہند کے سلطاں |
اے اولیائے سلطاںؑ چشمِ کرم ہو ہم پر |
ہے ناز اِسی کرم کے باعث جہاں کو ہم پر |
مشکل کشاؑ ہمارے، سبطِ نبی کے صدقے |
پہلے ہی ٹال دے، مشکل آنی ہے جو ہم پر |
ہم ہیں غلامِ مولائے کائناتؑ شاہدؔ |
عیدِ غدیر کی خوشیاں فرض ہیں، تو ہم پر |
یہ وعظ و پند ناصح بے کار ہی رہے گا |
شاہدؔ مے خوار تھا اور مے خوار ہی رہے گا |
یہ سوچ کر قدم رکھنا راہِ عشق پر تم |
تمام رستے منزل تک خار ہی رہے گا |
زاہد کے واسطے کعبہ بغرضِ طواف اور |
شاہدؔ کے واسطے کوئے یار ہی رہے گا |
اب دیکھیے کیسے جمتا ہے رنگِ محفل |
مجھ آشفتہ کو بزم سے وہ اُٹھا بیٹھے ہیں |
یہ اُن کی مرضی ہے وہ چارہ کریں نہ کریں |
ہم دردِ دل اپنا ان کو سُنا بیٹھے ہیں |
یہ دل اپنا یہ جان اپنی یہ زیست اپنی شاہدؔ |
اُن کے اندازِ بیاں پر ہم لُٹا بیٹھے ہیں |