| ایسے ہی وہ نہیں مِلا مجھ کو | 
| کام آیا ہے رات کا رونا | 
| کیوں مَرا جاتا ہے بغیر اُس کے | 
| چھوڑ بھی دے یہ روز کا رونا | 
| اُس نے پوچھا جو حالِ دل شاہدؔ | 
| کہتا کیا؟ مجھ کو آ گیا رونا | 
| جنتِ رب العلیٰ مشتاق ہے جن چار کی | 
| اُن میں ہے اِک ذاتِ اقدس حضرتِ عمّارؓ کی | 
| وہ لڑائی ہو جَمَل کی یا کہ پھر صِفِّین کی | 
| یہ مدد کرتے رہے ہیں حیدرِ کرارؑ کی | 
| جس کے والد, والدہ اسلام کے پہلے شہید | 
| منقبت شاہدؔ کہو اُس عاشقِ ابرارؐ کی | 
| پھر دورِ اُمیہ تازہ کر رہے ہیں یہ لوگ | 
| پھر سے اِنہوں نے حیدرؑ پر اُنگلی اُٹھائی ہے | 
| جن کے بڑے تیغ و خنجر سے نہیں لڑ پائے | 
| اولاد اب اُن کی مصرعوں پر اُتر آئی ہے | 
| یہ بغضِ علیؑ کے جو مارے ہوے ہیں شاہدؔ | 
| ہر ایک فتن کی بُُو اِن ہی میں سمائی ہے | 
| نگاہِ رشک سے تکتے ہیں شش جہات مکمل | 
| وہ مجھ پہ کر رہے ہیں چشمِ التفات مکمل | 
| مِرے وجود سے دنیائے عشق کو ملی رونق | 
| مِرے بغیر کہاں تھی یہ کائنات مکمل | 
| اے دوستو! مِرے اشعار دل کے کانوں سے سنیو | 
| مِلے گی اِن میں تمہیں دل کی واردات مکمل | 
| جامِ صہبا ٹوٹ کے بکھرا تو کیا | 
| واں سلامت چشمِ ساقی ہے ابھی | 
| او! مِرے ظالم، مِرے بیداد گر ! | 
| ایک زخم اور، جان باقی ہے ابھی | 
| یار سے شاہدؔ ہوا ہے ہم کلام | 
| آرزوئے دید باقی ہے ابھی | 
| نہیں سہل کچھ تِرے عشق کا حق ادا ہو جانا | 
| مِری ہستی کا تِری ہستی میں ہے فنا ہو جانا | 
| مِرے عشق کی طلب ہے یہی، ہے یہی تمنا | 
| تجھے دیکھتے ہی رہنا تُجھی میں فنا ہو جانا | 
| تِری بارگاہِ مقبول تلک مجھے لے آیا | 
| تِری جستجو میں دنیا سے مِرا خفا ہو جانا | 
| راہ تیری دیکھتے ہم کو زمانے لگ گئے | 
| اور تم اب آئے ہو جب ہم ٹھکانے لگ گئے | 
| یہ ہوا حاصل مِرے خاموش رہنے سے مجھے | 
| ہر طرف سے میری جانب پتھر آنے لگ گئے | 
| اِس قدر معصوم ہیں شاہدؔ کہ جس نے غم دیا | 
| داستانِ غم اُسی کو جا سنانے لگ گئے | 
| یہ راہِ عشق و وفا ہے رہِ سَقر نہیں یارو | 
| یہاں پہ کیوں کسی کا کوئی ہم سفر نہیں یارو؟ | 
| یہ کیسی اُس کی محبت ہے کیسی اُس کی وفا ہے؟ | 
| میں مر رہا ہوں یہاں اور اُسے خبر نہیں یارو | 
| یہ جو اِدھر دلِ شاہؔد میں روح سوز خلش ہے | 
| یہ نامراد سی دل کی خلش اُدھر نہیں یارو | 
| ہم کو نہ حشر میں ہو گی فکر کوئی حساب کی | 
| بندگی جو ہوئی زیارت کسی کے شباب کی | 
| دیدہِ مست آفریں سے کیا تم نے سب کو مست | 
| اور دکان کھولے بیٹھے رہے ہم شراب کی | 
| وہ حَسیں چہرہ وہ لبِ نرم وہ عارضِ گداز | 
| سامنے اِن کے کیا ہے اوقات کسی گلاب کی | 
| بتاؤ کس نے کروایا تھا وہ سب و شتم، کس نے | 
| عداوت حضرتِ حیدر سے رکھی یہ بھی بتلاؤ | 
| بتاتے ہو ہمیں صلحِ حسن کا چیخ چِلّا کے | 
| مگر اِس میں کی کس نے عہد شکنی یہ بھی بتلاؤ | 
| کرو صلحِ حسن کا شوق سے پرچار اے واعظ | 
| ولیکن شرطِ پنجم اُس میں کیا تھی یہ بھی بتلاؤ | 
| حالِ دل اُن سے کہہ نہیں سکتا | 
| جانتے ہیں وہ سب بغیر کہے | 
| نیند میں موت کا رہے کھٹکا | 
| وہ نہ جس رات شب بخیر کہے | 
| نیند آتی نہیں مجھے شاہد | 
| جب تلک وہ نہ شب بخیر کہے | 
| کیا؟ تِرا دل اُچاٹ ہوتا ہے | 
| لو، چَلا جاتا ہوں مِیں محفل سے | 
| کچھ ادھورا کبھی رہا ہی نہیں | 
| نسبت اپنی ہے پیرِ کامل سے | 
| بن کے شاہد نشانِ جادہ ہم | 
| رہتے جاتے ہیں دور منزل سے | 
| غموں کی مالا میں منظوم؟ ہاں منظوم ہوں یارم | 
| ترے جانے سے میں مغموم؟ ہاں مغموم ہوں یارم | 
| اب اِس سے بڑھ کے میری بد نصیبی اور کیا ہو گی | 
| تمہارے لمس سے محروم؟ ہاں محروم ہوں یارم | 
| تمہاری ذات لافانی تمہارے جلوے لافانی | 
| میں شاہدؔ اِک بشر معدوم؟ ہاں معدوم ہوں یارم | 
| مردِ جَری، ابو الاحرار ابنِ کرارؑ | 
| بَر حق مجاہدوں کے سردار ابنِ کرارؑ | 
| حسنینؑ کی محبت کا ہیں صِلہ محمدؐ | 
| ایمانِ کُل ہیں ابنِ کرار ابنِ کرارؑ | 
| حضرت حسن ہوں یا ہوں حضرت حُسین شاہدؔ | 
| ظلمت کی توڑتے ہیں تلوار ابنِ کرارؑ | 
| ہر گھڑی تو وہ مجھ سے لڑتی ہے | 
| پھر بچھڑنے سے کیوں وہ ڈرتی ہے | 
| میرے مرنے کی بات سن کر وہ | 
| سسکیاں اور آہیں بھرتی ہے | 
| بستیِ پھول کی ہر اک رنگت | 
| اس کے دستِ حنا سے لڑتی ہے | 
| کرم کرنے کو تو ہر بار وہ دشمن کی اور جائیں | 
| مگر میری طرف ہر بار وہ کرنے کو بیداد آئے | 
| مِری وحشت کا پایہ تو نہ کوئی پا سکا یاں پر | 
| اگر چہ دشت و صحرا میں بہت قیس اور فرہاد آئے | 
| جو آب و تاب عز و شان دیکھی خُلد کی شاہدؔ | 
| تو ہم کو اُن کا کوچہ اُن کے بام و در ہی یاد آئے | 
| تُو مظہرِ حُسنِ بے نشاں اے ہند کے سلطاں | 
| تُو نائبِ شہِ ہر دو جہاں اے ہند کے سلطاں | 
| تُو جادہِ مکاں و لا مکاں اے ہند کے سلطاں | 
| تُو زاتِ حق کا چمکتا نشاں اے ہند کے سلطاں | 
| تمہارے در پہ جسد میرا سجدہ سجدہ پڑا ہے | 
| مرا ہے کعبہ ترا آستاں اے ہند کے سلطاں |