| بندوں کو ناصَبُور کرتِیں ہیں | 
| دوریاں سب کو چُور کرتِیں ہیں | 
| خواہشِ حد سے جو تَجاوُز ہوں | 
| دل کی تسکین دُور کرتِیں ہیں | 
| جُز مَےِ چشم، سب شَرابیں ہی | 
| آدمی بے شُعُور کرتِیں ہیں | 
| واعظا چُپ ہو جا بنامِ خدا | 
| تیری باتیں فُتُور کرتِیں ہیں | 
| اُس کی یادیں بَصُورَتِ اِلْہام | 
| لوحِ دل پر ظُہُور کرتِیں ہیں | 
| وہ کلائی میں اپنی گر پہنے | 
| چوڑیاں بھی غُرُور کرتِیں ہیں | 
| تیری آنکھیں عجیب ہیں شاہدؔ | 
| یہ شکایت ضَرُور کرتِیں ہیں | 
    
معلومات