صبحِ ہنگام ہوتی ہے بیدار
ختم ہوتی ہے جستجوئے یار
اِک تمہاری نگاہِ اُلفت سے
ہوے بیکار، رنج و غم، آزار
دامنِ رحمتِ خدا میں ہے
جو کرے ہے گناہ کا اقرار
راز کُھلنے کا اِس میں خدشہ ہے
یوں نہیں ناچتے سرِ بازار
وہ چلے آتے ہیں عیادت کو
از پئے چین ہے مجھے آزار
ابھی دنیا سنبھل نہ پائے گی
ابھی برہم ہیں تارِ زلفِ یار
آپ کا جانا, موت کا آنا
اِک یہی تو ہے لمحہِ دشوار
وہ اگر کرتے وعدہِ پُرسش
ہر نئے روز ہوتے ہم بیمار
ہم کو معلوم ہیں تمہارے فریب
او دَغا باز، او نگاہِ یار
مجھے کچھ غم نہیں شبِ غم کا
ہے مِرے پاس ساغرِ سرشار
رونقِ شب کچھ ایسے بڑھتی ہے
پاس کچھ مے ہو اور کچھ مے خوار
ہو گئی رات گھر چَلو شاہدؔ
راہ تکتے ہوں گے دَر و دیوار

0
94