یہ محبت عجب خُماری ہے
ایک کے بعد ایک جاری ہے
بے نیازی بُتوں میں ہوتی ہے
اِن سے اظہارِ عشق خواری ہے
گو کہ عذر آنے سے ہے اُس کو مگر
پھر بھی دل اُس کا انتظاری ہے
حضرتِ داغ کو وہ پڑھ لیویں
جن کو مضموں کَمر کا بَھاری ہے
اُس بَدن کی تراش دیکھی ہے؟
خوب قدرت کی دستکاری ہے
کارفرما ہو بس نصیحت پر
کس طرح کی یہ دوست داری ہے
یہ غضب ہے مجھے کِیا نائب
اور مجھ ہی سے پردہ داری ہے
زندگی تو وِصالِ یار میں تھی
اب تو بس اپنی دَم شُماری ہے
مے کَدہ کہتے ہیں جِسے شاہدؔ
وَہی جائے سَکوں ہماری ہے

0
25