حادثہ یہ گُزر گیا آخر
دل سے تُو بھی اُتر گیا آخر
خود وہ مجھ سے بچھڑ گیا آخر
قول سے وہ مُکر گیا آخر
جب ترا جلوہ ہر جگہ ہے تو
پھر میں کیوں تیرے گھر گیا آخر
گر تَرے پاس بھی نہیں، تو پھر
یہ مِرا دل کدھر گیا آخر
کر گیا چھلنی دل کو تیرِ نظر
وار یہ کام کر گیا آخر
شُکر، لے کر متاعِ وحشتِ دل
میں لحد میں اُتر گیا آخر
مجھ کو محرومِ التفات کِیا
اور خود بھی وہ مر گیا آخر
شاہدؔ آ کر وہ آخری لمحے
مجھ پہ احسان کر گیا آخر
آتشِ ہجر میں سُلگتے ہوے
شاہدِؔ خستہ مر گیا آخر

0
150