| وہ بھی رہ جاتے دِل اپنا تھام کے | 
| اشک ہوتے میرے بھی کچھ کام کے | 
| شاملِ خُو جان کر اَصْنام کے | 
| لے رَہا ہُوں لُطْف مَیں دُشْنام کے | 
| آ خبر لے میری اے عیسائے دم! | 
| میں بھی دن دیکھوں کبھی آرام کے | 
| راکھ انگیٹھی میں ہُوے خود دیکھ لو | 
| خط لکھے تھے جو تمہارے نام کے | 
| مجھ سے دیوانے بہت کم ہیں، کہ جو | 
| ہوش اُڑا دیں گردشِ اَیّام کے | 
| کیا عَجب, شب ہائے ہجراں کی سَحَر | 
| داغِ دل جلتے رَہے ہیں شام کے | 
| پھینکتے جاتے ہیں تیرِ اِفْتِرا | 
| دوست, دشمن ہو گئے ہیں نام کے | 
| کیا بَتاؤں حال اُن کی بزم کا | 
| رہ گیا میں تو وہاں دل تھام کے | 
| رُخ پہ بِکھرے گیسوؤں سے کھیل کر | 
| ہوش اُڑاتے ہیں وہ صبح و شام کے | 
| ہم تو پوشاکِ جُنُوں پہنیں گے, شیخ! | 
| تم مَزے لو جامہِ اِحْرام کے | 
| مے کَدے میں ظرف ایسا کس کا ہے؟ | 
| جو اُتارے صدقے خالی جام کے | 
| ڈوبتے کو ہے سَہارا تِنْکے کا | 
| مجھ کو کچھ قطرے مَےِ گُلْفام کے | 
| شاہدؔ آخر اپنے بھی دن پِھر گئے | 
| منتظر ہیں وہ مِرے پیغام کے | 
    
معلومات