وقتِ آخر ہی نظر رشکِ مسیحا کرتے
عمر گزری تھی مِری تیری تمنا کرتے
پھر سبھی واعظِ نادان بھی سجدہ کرتے
وہ کبھی سامنے گر نقشِ کفِ پا کرتے
ایک صورت یہی سجدہ اُنہیں کرنے کی تھی
ہم شجر ہوتے حجر ہوتے تو سجدہ کرتے
جوشِ وحشت پہ ہمیں ضبط بہت ہے ورنہ
اپنے دامن کو ہی ہم دامنِ صحرا کرتے
ہم سے بھی مثلِ انا الحق کوئی دعوی ہوتا
ہم بھی دنیا میں تری کوئی تماشہ کرتے
ہم کہ راضی بہ رضا جان لٹانے والے
ہم ترے ظلم و ستم کی نہیں پروا کرتے
مانتے ہم بھی یہ اعجازِ مسیحائی ترا
جو ہمارے دلِ تفتہ کا مداوا کرتے
تُو اگر ہوتا نہ میخانے صنم خانے میں
تاب ہم میں کہاں اِن کی جو تمنا کرتے
وہ تو بے ساختہ آنسو نکل آئے میرے
رازِ دل ان پہ مگر ہم تو نہ افشا کرتے
کیا یہی ہے تِرے دیوانوں کی قسمت جاناں
یاد میں تیری شب و روز ہیں تڑپا کرتے
لاج اگر شانِ کریمی کی نہ ہوتی مقصود
لازمی وہ سرِ محشر مجھے رسوا کرتے
میری قسمت میں بھی ہوتا کبھی ایسا شاہؔد
میں جو گرتا تو مجھے آپ سنبھالا کرتے

0
117