کرتی ہے فضا رقصِ تماشہ مرے آگے
رہتا ہے یہ عالم تہ و بالا مرے آگے
خاموش ہیں سب رنگِ تمنا مرے آگے
بکھرا ہے سکوتِ شبِ یلدا مرے آگے
اِک نکتہِ حق ہو گیا ظاہر مرے ہوتے
حیرت میں ہے پیمانہ خرد کا مرے آگے
وہ رند ہوں جُھکتی ہے صراحی مرے حق میں
وہ شعر ہوں جو کُھلتا ہے تنہا مرے آگے
اِک سِحْر ہے انگشت کا کٹنا مِرے نزدیک
اِک مضحکہ ہے حسنِ زلیخا مرے آگے
کرتا نہیں ہے بات کوئی بھی مرے پیچھے
چلتا نہیں ہے زور کسی کا مرے آگے
مجھ کو تپشِ عشق نے سُلگائے رکھا ہے
کیا آتشِ نمرود کا جلنا مرے آگے
جب حرصِ جہاں دل سے مِرے ختم ہوئی تو
اُس ذات کے جلوے ہوے کیا کیا مرے آگے
پُر لطف تھی، اعلی تھی، فقط بے خَبَری تک
جب جان لیا ہیچ ہے دنیا مرے آگے
میں دیکھ چُکا سر بسر احوالِ گلستاں
ہر غنچہ و گلچیں ہے فسردہ مرے آگے
مَیں لاکھ کہیں بھاگ چَلوں گھوم گُھما کے
آ جاتی ہے تیری ہی تمنا مرے آگے
کُھل جاویں کئی بھید سکوں پاویں دل و جاں
غالب کا جو کوئی پڑھے مصرعہ مرے آگے
اک شعلہِ وصل اب کہ بھڑک اُٹّھا ہے دل میں
ہے آتشِ سیال سراپا مرے آگے
تھا مجھ کو ہنر حُسنِ طلب کا مِرے ہم چشم!
وہ بندِ قبا کیسے نہ کُھلتا مِرے آگے
اب ضعف کے عالم میں پہنچ میں نہیں آتا
رکھ دے کوئی پیمانہِ صہبا مِرے آگے
ہوتی ہے قَدَم رَن٘جَہ یہاں فصلِ بہاراں
پھر ٹوٹ گِرے گی مِری توبہ مِرے آگے
کیوں تم نے گرائی ہے دلِ خستہ پہ بجلی
کیوں تم نے کہا غیر کو اچھا مرے آگے
معلوم ہو جس بزم میں مسند نشیں ہیں آپ
اُس بزم میں دل جائے ہے میرا مِرے آگے
جُز سجدے کے اِمکاں نہیں رہتا کوئی شاہدؔ
آئے جو خدا بن کے وہ بندہ مِرے آگے

0
158