جب حرصِ جہاں ختم ہوئی دل سے مِرے, پھر |
اُس ذات کے جلوے ہوے کیا کیا مرے آگے |
پھر آ گئی ہے دیکھیے وہ فصلِ بہاراں |
پھر ٹوٹ گِرے گی مِری توبہ مِرے آگے |
معلوم ہو جس بزم میں مسند نشیں ہیں آپ |
اُس بزم میں دل جائے ہے میرا مِرے آگے |
کیوں تم نے گرائی ہے دلِ خستہ پہ بجلی |
کیوں تم نے کہا غیر کو اچھا مرے آگے |
اب ضعف کے عالم میں پہنچ میں نہیں آتا |
رکھ دے کوئی پیمانہِ صہبا مِرے آگے |
جُز سجدے کے اِمکاں نہیں رہتا کوئی شاہدؔ |
آئے جو خدا بن کے وہ بندہ مِرے آگے |
معلومات