جب حرصِ جہاں ختم ہوئی دل سے مِرے, پھر
اُس ذات کے جلوے ہوے کیا کیا مرے آگے
پھر آ گئی ہے دیکھیے وہ فصلِ بہاراں
پھر ٹوٹ گِرے گی مِری توبہ مِرے آگے
معلوم ہو جس بزم میں مسند نشیں ہیں آپ
اُس بزم میں دل جائے ہے میرا مِرے آگے
کیوں تم نے گرائی ہے دلِ خستہ پہ بجلی
کیوں تم نے کہا غیر کو اچھا مرے آگے
اب ضعف کے عالم میں پہنچ میں نہیں آتا
رکھ دے کوئی پیمانہِ صہبا مِرے آگے
جُز سجدے کے اِمکاں نہیں رہتا کوئی شاہدؔ
آئے جو خدا بن کے وہ بندہ مِرے آگے

0
121