اُس رُخ کو نہ ہر گز مَہِ تابان سمجھیے |
واللہ سمجھیے جو تو قرآن سمجھیے |
ہیں آپ مِرے جسم میں تمثیلِ دل و جاں |
بعد اپنے مِرے جسم کو بے جان سمجھیے |
وہ جو نَظَرِ لطف کریں گاہے بَگاہے |
کیوں ایسی نظر کو نہ پھر احسان سمجھیے |
دنیا کا سفر یوں کٹے گا یار سکوں سے |
دم بھر کا یہاں خود کو جو مہمان سمجھیے |
گر پھول ہی بالفرض صفت دل کی ہے ٹھہری |
تو سینے کو پھر کیوں نہ گلستان سمجھیے؟ |
اب آپ کی قسمت میں نہیں سیرِ گلستاں |
اب آپ قفس کو ہی گلستان سمجھیے |
جو عزتِ نِسواں نہیں کرتا کبھی شاہدؔ |
ایسے بُرے انسان کو حیوان سمجھیے |
معلومات