اِک اُداسی سی کھا رہی ہے مجھے
زندگی آزما رہی ہے مجھے
پہلے وہ خود لگا کر اپنی لگن
اب تماشا بنا رہی ہے مجھے
یاد تیری مِیں مَر رہا ہوں مَیں
اور تُو ہے بُھلا رہی ہے مجھے
گُو وہ بیداد خُو رہا ہر دم
اُس کی لیکن حیا رہی ہے مجھے
اب شکایت نہیں مجھے اُس سے
اب تو دل میں بسا رہی ہے مجھے
آرزوئے وِصال تو شاہدؔ
ہر گھڑی، ہر سَما رہی ہے مجھے

0
105