رہِ کوئے جاناں دِکھائی گئی ہے |
مِری سوئی قسمت جگائی گئی ہے |
یوں معراج خود کو کرائی گئی ہے |
جَبیں اُن کے در پر جھکائی گئی ہے |
اُنہیں داستاں یوں سنائی گئی ہے |
کہ سنتے ہی بگڑی بنائی گئی ہے |
دو عالم کو بخشا سکونِ دل و جاں |
نظر مجھ سے ہی کیوں چڑائی گئی ہے |
ہمیں بھول بیٹھا ہے تُو اور ہم سے |
تَری یاد بھی کب بُھلائی گئی ہے |
خدا بھی ہے اُس جانِ آدم کا مشتاق |
تِرے نام پر جو لُٹائی گئی ہے |
اُنہیں کا مُحب ہے خدائے دو عالم |
اُنہیں کے تصدق خدائی گئی ہے |
بس اِک اُن کے اسمِ منور سے شاہدؔ |
مِری لوحِ دل جگمگائی گئی ہے |
معلومات