اب اُن کو بھی ادائیں کس قدر سفاک آتی ہیں |
ہمیں تازہ بہ تازہ ڈھنگ سے وہ آزماتی ہیں |
لگے مجھ کو نگاہیں اُن کی کوئی تیر ہیں گویا |
یہ جس پر پڑتی ہیں اُس کے دل و جاں چیر جاتی ہیں |
خدا کے واسطے اب آ بھی جا اے میری جانِ جاں |
کہ تیری راہ تکتے آنکھیں پتھر ہوتی جاتی ہیں |
ترے در سے نہ جا پائے جو جیتے جی، اُنہیں دیکھو |
ترے در سے اب اُن کی میتیں لے جائی جاتی ہیں |
اندھیرا چھاتے ہی شاہدؔ بُتوں کی وہ حَسیں یادیں |
بس آتی ہیں خدا جانے کہاں سے کیسے آتی ہیں |
معلومات