| مرضِ دل ہی دوا نہیں ہوتا | 
| ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا | 
| غیر سے لاکھ میں نے روکا، مگر | 
| اَثَر اُس کو زرا نہیں ہوتا | 
| ذکر اُس کا بہت کِیا پھر بھی | 
| رنج راحت فزا نہیں ہوتا | 
| خاک تجھ کو گِلہ ہے دنیا سے | 
| تُو بھی وعدہ وفا نہیں ہوتا | 
| یہ بتایا بُتوں کی خُو نے ہمیں | 
| حرفِ ناصح بُرا نہیں ہوتا | 
| ظلم کر بیٹھے وہ ہر اِیک مگر | 
| شوق زور آزما نہیں ہوتا | 
| وہ چلا آئے مجھ سے ملنے کو | 
| تجھ سے یہ اے دعا نہیں ہوتا | 
| پھر بھی وہ سنتے ہیں تحمل سے | 
| گرچہ اِک مدعا نہیں ہوتا | 
| دوست مجھ کو بہت ستاتے ہیں | 
| میں کسی سے خفا نہیں ہوتا | 
| چین پاتا ہے یہ دلِ مضطر | 
| جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا | 
| ہے حقیقت کہ حُسن و عشق کے بیچ | 
| جنگ بن کچھ مزا نہیں ہوتا | 
| ہاتھ ہلکا رکھو زرا مجھ پر | 
| سب کا دل ایک سا نہیں ہوتا | 
| تم عطا، عرض کے بغیر کرو | 
| دستِ عاشق، رسا نہیں ہوتا | 
| بے نیازی بَھلے ہزار ہوے | 
| صنم آخر خدا نہیں ہوتا | 
| تم سے وابستہ ہے سکونِ دل | 
| سو تمہارے سوا نہیں ہوتا | 
| شاہدؔ آیا ہوا کسی حَسیں پر | 
| دل کسی کام کا نہیں ہوتا | 
| جام اُٹھاؤں میں کس طرح شاہدؔ | 
| ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا | 
    
معلومات