| جس نے بھی سنا، دھمال میں تھا | 
| وہ ایسے سُر اور تال میں تھا | 
| ملنا کسی ایک حال میں تھا | 
| میں اُلجھا ماہ و سال میں تھا | 
| جب تُو میرے خیال میں تھا | 
| وہ دور اپنا کمال میں تھا | 
| حاصل ہے میری زندگی کا | 
| وہ لمحہ، جو وصال میں تھا | 
| وہ بھی اِک دن ہوا حقیقت | 
| جو بس خواب و خیال میں تھا | 
| کس نے حد عشق میں لگائی ؟ | 
| اِس پر کون اعتدال میں تھا ؟ | 
| اُس کو دیکھے فدا ہوے سب | 
| وہ ایسے خد اور خال میں تھا | 
| حُسنِ اَزَلی عیاں ہوا تب | 
| جب محو ترے جمال میں تھا | 
| شب محفل سے جب اُن کی لوٹا | 
| تو شاہدؔ خستہ حال میں تھا | 
    
معلومات