غم زدہ ہے, شاد ہے
دل بھی اِک اضداد ہے
کیسی یہ اُفتاد ہے
اُن دِنوں کی یاد ہے
وائے قسمت! باغ پر
پہرہِ صیّاد ہے
مجھ کو اِتنا مَت سَتا
زندگی! فریاد ہے
ہوتی ہے تعمیرِ اشک
دردِ دل بنیاد ہے
در حقیقت زندگی
زندگی کے بعد ہے
مر چلے, پھر بھی اُنہیں
حسرتِ بیداد ہے
ظلم سہنے کو, مجھے
عشق کی امداد ہے
شکوہِ قیدِ قفس
سَرمَدی مُعتاد ہے
ہم کو دکھ ہے, جو ہمیں
جراتِ فریاد ہے
دیکھیے کیا ہو, مَیں ہوں
تیشَہِ فرہاد ہے
مجھ کو تاریخِ وصال
صورتِ اَعیاد ہے
ریختے میں, ایک میرؔ
لاکھوں کا استاد ہے
بوسہِ لب کی یہ روک
ظلم ہے, بیداد ہے
آ گئے گاؤں سے, پر
دل وَہیں آباد ہے
اب کہاں دیر و حرم
مے کَدہ آباد ہے
تیرا شاہدؔ تیرے بعد
خانماں برباد ہے

0
32